رحمت للعالمین اتھارٹی کا قیام
اور
وطن عزیز کے’’ علمائے دین کی ’’مصروفیات‘‘
جھگڑا،جھگڑا،ہر وقت جھگڑا،ہر جگہہ جھگڑا۔ کہنے کو تو ربیع الاول کا مہینہ ہے جناب وزیر اعظم صاحب کی طرف سے پورے ملک میں عشرہ رحمت للعالمین منانے کا اعلان کیاگیاتھا اور پھر بارہ ربیع الاول کےدن ایک شاندار تقریب میں آپ نے رحمت للعالمین اتھارٹی بنانے کا اعلان بھی فرمادیا تھا۔جناب وزیر اعظم صاحب نے خود اس اتھارٹی کے خدوخال واضح کرتے ہوئے فرمایا ہےکہ یہ وہ اتھارٹی ہوگی جس میں موجود ہو کر علمائے دین اور مذہبی سکالزر ایک طرف دنیا کو اسلام کا حقیقی اور خوبصورت چہرہ دکھائیں گے تو دوسری وطن عزیز میں اسلامی روایات اور اسلامی اقدار کو فروغ دیں گے۔
جناب وزیر اعظم صاحب آپ کی سوچ کو سلام ۔بہت ہی خوبصورت اور مستحسن سوچ ہے ۔بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اس اقدام کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔لیکن یہ سوچ ، خوبصورتی سے زیادہ معصومانہ ہے کیونکہ اس اتھارٹی میں سوسائٹی سے زیادہ سوسائٹی کو تبدیل کرنے والے علماء اور سکالرز کا رول ہو گا ۔کیا واقعی ہمارے وطن عزیز کے علما ء یہ ذمہ داری نبھا سکتے ہیں؟ یہ وہ ملین ڈالر سوال ہے جو وطن عزیز میں آج ہر صاحب ذی شعور ہونٹوں میں دبائے بیٹھا ہے
میں نے وقت کے دھارے کو بدلنے والے ان علماء کا سرسری سا طائرانہ جائزہ لینے کی کوشش کی ہے کہ آخر یہ سکالرزاپنے اپنے ذاتی دائروں میں کن ’’ خدمات جلیلہ ‘‘ میں مصروف ہیں۔سچ تو یہ ہےکہ میں نے یہ جانا کہ اگر عشرہ رحمت للعالمین منانے کی تیا ریاں بھر پور ہیں تو اس سے بھی زیادہ جوش کے ساتھ جھگڑے اور فساد سے متعلقہ ہر بند سوراخ کو کھولنے کے لئے ہاتھ پائوں مارے جا رہے ہیں۔ ہر روز نئے سےنئے مسائل ڈھونڈ کر زندہ کئے جا رہے ہیں۔ مثلاََیہ مسئلہ زندہ کیا جارہا ہے کہ ۔۔حضرت ابو طالب ؓایمان لاکر فوت ہوئے تھے یا کفر پر فوت ہوئے۔۔یا پھر یہ کہ ’’علی ؓ کاپہلا نمبر ہےیاحضرت ابو بکر ؓ کا ‘‘۔۔ یا پھر یہ کہ’’ حضرت فاطمہ ؓ نے باغ فدک کا مطالبہ کرکے اجتہادی غلطی کی‘‘ یا ’’وہ معصوم عن الخطا ء ہیں‘‘ ۔۔۔یا پھر یہ کہ ’’یزید لعنتی تھا یا رضی اللہ تھا ‘‘ ۔ حیرت ہے ان جھگڑوں کی نحوست سموگ سے بھی زیادہ گھنا کالا بادل بن کر بستیوں پر چھائے چلی جا رہی ہے مگر کسی نیرو کو اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔ سموگ سے بھی زیادہ گھنا اور کالا بادل کیوں کہہ رہا ہوں وہ اس لئے کہ پہلے جھگڑا ہوتاتھا بریلوی کا دیوبندی سے یا دیوبندی کا وہابی سے یا وہابی کا اہل قرآن سے مگر حالیہ مذہبی مخاصمات کے ٹاپک بھی ڈھونڈ کر نئےنئے نکالے گئے ہیں اور تقسیم اور حلقہ بندیوںکی واردات بھی نئے سرے سے جاری کی جارہی ہے۔ اب بریلوی بریلوی سے جھگڑ رہے ہیں اور وہابی وہابی سے چنانچہ دیکھیں ۔مشہور بریلوی مولوی ڈاکٹر مصباحی صاحب نے شان علی ؓ بیان کرنے کے لئےایک عجیب دلیل پیدا کی اور بیان کیا کہ’’ علی باج محمد دا کوئی ویر دیکھا مینوں‘‘ تقریر یو ٹیوب پر آئی تو دوسری طرف سے ایک اور بڑا نام بریلوی نام پیر سید مظفر شاہ قادری مقابلہ پر آگئے ۔آپ نے فرمایا ’’ ڈاکٹڑ مصباحی اپنی حد میں رہیں۔ابھی مولا علی کے غلام مرے نہیںہیں۔یہ شعر نہیں ہے بکواس ہے‘‘ جواب میں مصباحی صاحب بھی خوب گرجے اور کئی ساتھی علماء سمیت حملہ آور ہوئے ۔جواب میں کہاں خاموشی ہو سکتی تھی ۔اب اس محاذ پر تادم تحریر ایک بڑا لشکر ایک مزید اپنے سے بڑے لشکر سے بر سر پیکا ہے۔قریب ہی دوسرے محاذ پر اس سے بھی بڑا اور گھمبیر مسئلہ ایمان ابو طالب ؓ بیان کیا جارہا ہے۔اس میں ایک طرف شیعہ حضرات تو پہلے ہی سے مورچہ سنبھالے ہوئے تھے تو دوسری طرف بریلویوں کے سینکڑوں علماء بھی آپس میں گتھم گھتا ہو گئےہیں۔ایک گروہ حضرت ابوطالب کو مومن اور جنتی ثابت کرنے کےلئے دلائل دے رہا ہے تو دوسرا ان کے بغیر کلمہ پڑھے، کفر کی حالت میں فوت ہونے پر بضد ہے۔ مفتی ثمر عباس عطاری قادری صاحب جو کہ ایک مشہور بریلوی عالم دین ہیں کا ایک جلسہ میں یہ جواب دینا ہی تھا کہ انہوں نے کلمہ نہیں پڑھا وہ طوفان بدتمیزی اور ہلڑہوا کہ انہیںاپنے ہی بریلوی بھائیوں کاجلسہ چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔
مزید مصروفیت کے لئے ہمارے پاس اس سے بھی مزید بڑا مسئلہ موجود ہے جو اس سے قبل تو صرف بریلویوں اور دیوبندیوں میں وجہ نزاع بناہوا تھا مگراب خود دیوبندیوں کے لئے بھی سوہان روح بن گیا ہے۔ یعنی مسئلہ حیات النبی ﷺ فی القبر ۔چنانچہ اس محاذ پرمشہور دیوبندی عالم دین جناب مولانا منظور مینگل صاحب ایک دوسرےمشہور دیوبندی عالم دین مولانا خضرحیات بھکروی سے پنجہ آزما ہیں۔ ایک کے پیچھے مولانا زرولی گروپ کھڑا ہے تو دوسرے کے پیچھے الیا س گھمن صاحب اپنی سپاہ کے ساتھ کھڑے ہیں اور بحث بلکہ بحث کیا کج بحثی کے جواب الجواب ریکارڈ توڑے جا رہے ہیں۔ثابت یہ کیا جارہا ہےکہ آپ ﷺ قبر مبارک میں زندہ ہیں یا نہیں۔ اس مسئلہ پر بیسیوں کتب اور سینکڑوں تقاریر ریکارڈ کا حصہ بن چکی ہیں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ پوری دیوبندی امت حیاتی اور مماتی کے دو گروپس میں تقسیم ہو چکی ہے۔اور ان علماء کے وارثین
پوری تندہی سے سے اس محاذ کو سنبھالے کھڑے ہیں اورتوپیں پوری حرارت ایمانی سے ایک دوسرے کے قلعہ جات کو تباہ کرنے میں مصروف ہیں۔
نئے نئے اختلافات کی تلاش میں علماء ایک اور انتہائی جذباتی اور نازک مسئلہ کو بھی چھیڑنے سے باز نہیں آئے چنانچہ ایک بڑے گروپ گروپ نے یہ مسئلہ لے کر لیکچر دینا شروع کر دئیے ہیںکہ یزید سے واقعہ کربلا سر زد ہی نہیں ہوا بلکہ حضرت امام حسین ؓ کی شہادت تو نامعلوم ڈاکووں کے ہاتھوں ہوئی تھی۔بلکہ یزید تو نیک اور پارسا تھا۔بلکہ جنتی تھا اور حدیث رسول ﷺ قسطنطنیہ کا مئورد تھا۔بلکہ علیہ السلام تھا ۔بلکہ رضی اللہ تھا ۔ اس محاذ پرتو گھمسان سے کوئی بڑا لفظ استعمال ہونا چاہئےکیونکہ ایک طرف تو شیعہ حضرات دیوبندیوں سےمصروف جنگ ہیں تو دوسری طرف دیوبندی خود دیوبندیوں کے خلاف برسرپیکارہیں۔تیسری طرف پہلی دفعہ بریلو یوں کا ایک بڑا گروپ بھی یزید کے جنتی ہونے کے نعرے لگانے لگ گیا ہے جبکہ جواب میں بریلویوں کا ہی دوسرا پلڑالعنت لعنت کے نعرے لگانے میں مصروف ہے۔پھر ان سب سے پرے چوتھا گروپ اہل حدیث کاوجود پا چکا ہے ۔وہ تو باقاعدہ یزیدی اہل حدیث اور حسینی اہل حدیث کے دو بڑے بلاک میں تقسیم ہو گئے ہیں۔اور اب تو وہ اپنے آپ کو باقاعدہ طورپر یزیدی اہل حدیث اور حسینی اہل حدیث کے نام سے تعارف پیش کرنا شروع کر چکے ہیں۔چنانچہ دیوبندیوں میں سے لال مسجد والے مولوی عبدالعزیز صاحب انکے مدارس اور پورا گروپ ،مولوی غلام اللہ مرحوم صاحب کا پنڈی والا مدرسہ اور ان کا پورا گروپ مفتی تقی عثمانی صاحب ،مفتی طارق مسعود صاحب کراچی والے اور ان کا گروپ،مولوی الیاس گھمن صاحب اور ان کا گروپ ،مکہ میں بیٹھے لال داڑھی والے شیخ مکی اور ہندوستان میں بیٹھے ڈاکٹر ذاکر نائیک یزید کی حمائت میں کھڑے ہیں جبکہ مولانا طارق جمیل صاحب اور مولانا اسحٰق جھالوی گروپ یزید کو لعنتی سمجھتا ہے۔حیرت تو بریلویوں پر ہے جن میں روئت ہلال کمیٹی والے مفتی منیب الرحمٰن صاحب جن کو بریلوی مفتی اعظم پاکستان اورمفتی فضل احمد چشتی صاحب جیسے عالم دین جنہیں بریلوی امام الغیرت،پاسبان اسلام،شمشیر بے نیام،مفکر اسلام،استاذالعلماء کے نام سے پیار کرتے ہیں۔ چشتی صاحب کا پورا گروپ تو یہ چیلنج کر رہا ہے کہ ’’کربلا میں مولا حسین ؓکا پانی بھی بند نہیں ہوا۔پانی بند ہونا کوئی ثابت کردے تو میں ناک کٹوا دوں گا ‘‘
اہل حدیث تو بات کوظلم کی حد تک بہت دور تک کھینچ لے گئے ہیں وہ تو کہتے ہیں کہ ’’واقعہ کربلا صرف رنگ بازی ہے۔یزید بے قصور ہے ۔ حضرت امام حسین کی شہادت تو یزید کی افوج کے ہاتھوں سے ہوئی ہی نہیںبلکہ نامعلوم ڈاکووں کے ہاتھوں ہوئی‘‘ اہل حدیث عالم دین کفائت اللہ سنابلی اور مفتی ابو یحی ٰ نور پوری گروپ کا یہ عقیدہ ہے۔مولانا کفائت اللہ سنابلی نے تو اس موضوع پرسینکڑوں صفحات کی کتاب تک لکھ ماری ہے’’یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ ‘‘۔اب صورت حال یہ ہے کہ یزید کے معاملہ پرپاکستان کے حالیہ اہل حدیث دو بڑے گروپس میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ ایک گروپ جس کی قیادت لال رومال والے شیخ توصیف الرحمٰن صاحب اور پنڈی والے طالب الرحمٰن صاحب کر ہے ہیں اور ان کے ساتھ مفتی ابو یحیٰ نور پوری،مفتی کفائت اللہ سنابلی اور مولانا غلام مصطفےٰظہیر صاحب ہیں جبکہ دسری طرف ، حافظ عمر صدیق صاحب کا گروپ ہے ۔ اہل حدیث کی دنوں ونگز اپنے اپنے کلپ یزیدی اہل حدیث اور حسینی اہل حدیث کے نام سے آن ائیر کر رہے ہیںبلکہ حسینی گروپ ہر کلپ کے ساتھ یہ شعر ٹائیٹل پر لگا رہے ہیں کہ کرتوت جان کر بھی ’’ کالے ‘‘ یزید کے ۔۔۔پھر بھی اسی کے ساتھ ہیں یہ سالے یزید کے۔یہ فتنہ اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ ابھی تھما بھی نہیں تھا کہ مولانا سید عرفان شاہ مشہدی صاحب نے ایک نیا نعرہ لگا دیا ہے کہ علی دا پہلا نمبر۔ اب یہ فتنہ تو جیسے ام الفتن بن گیا ہے۔ ہر چڑھتے دن کے ساتھ جس کی شدت اور دھول میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ سید عرفان شاہ مشہدی کا ساتھ دینے کے لئے ایک طرف علی پور سیداں کی گدی۔مفتی حنیف قریشی صاحب کا گروپ۔سید ریاض حسین شاہ پنڈی والوں کا گروپ۔ اورمفتی شمس الر حمٰن صاحب کا گروپ جیسے بڑے بریلوی خانوادے سینکڑوں ہزاروں علماء اور مفتیان کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں تو دوسری طرف تحریک لبیک ڈاکٹر آصف اشرف جلالی گروپ ۔گدی آف بھکی شریف۔گدی آف کوٹلہ شریف۔مفتی مظفر حسین شاہ صاحب اور مفتی ثمر عباس عطاری قادری ،مفتی غفران محمود سیالوی اور آستانہ عالیہ شرق پور جیسے بہت بڑے بریلوی ٹبر اپنے سینکڑوں مدرسوں کے لاکھوں شاگردان کے ساتھ شمشیر بکف ہو گئے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ اگر علی کا پہلا نمبر تو حضرت ابو بکر کا کونسا نمبر ہے؟
یہ بڑے بڑے بکھیڑے ابھی سمٹنے نہ پائے تھے کہ مفتی اویس رضا قادری نے اپنی بیٹی اور بیٹے کی شادی محرم میں کر دی تو اس پر بھی ایک لمبی بحث شروع ہوگئی ۔مفتی حنیف قریشی صاحب نے ایک فضول سا نازیبابیان دے دیا بس پھر حما ئیتیوں اور مخالفین کو لے کر ایک نئی گاڑی چل پڑی حتی کہ دعوت اسلامی کے امیر بابا الیاس قادری صاحب اور مشہور بریلوی مناظر مظفر شاہ کے درمیان مناظرہ تک کی نوبت جا پہنچی۔یہ آگ ابھی بجھی نہیں تھی کہ علامہ امین شہیدی نے ڈاکٹر اشرف آصف جلالی صاحب کے بارہ میں اعلان کر دیا کہ ’’فسادی ملہّ ڈاکٹر آصف زلیلی نے فاطمہ ؑ کے بعد علی ؓ کو بھی خطا کار کہہ ڈالا۔ پلید نے قرآن کا بھی انکار کر دیا۔‘‘ جبکہ ڈاکٹر اشرف آصف جلالی صاحب ایک دوسرے معروف عالم دین اور مفسر قرآن اقبال چشتی کو کافر قرار دے کران کا تعارف یوںکروارہے ہیں ’’ محبت اہل بیت کی آڑ میں اقبال چشتی کے کفریات‘‘ ۔مفتی حنیف قریشی جو آج کل بریلویوں کے بہت معروف عالم دین گنے جاتے ہیں۔ انہیں ایک دوسرے بریلوی پروفیسر اور پیر صاحب یعنی مفتی پروفیسر عبد الستار سعیدی بریلوی بے دین رافضی قرار دے کر بریلویت سے ہی نکال رہے ہیں ’’ نکل جائو مسلک سے ۔تیرے جیسے رافضی کی کوئی ضرورت نہیں۔میرے شاگرد نے تجھے پورا ننگا کیا تھا سوچ میں تیرے ساتھ کیا کروں گا‘‘۔ ایک نامور بریلوی مناظرجناب سید مظفر حسین شاہ صاحب دوسرے بریلوی سکالرشمس الرحمٰن مشہدی اور مشہور گدی نشین اور پیرجناب سید ریاض حسین شاہ کو بریلویت کے دائرہ سے باہر نکالتے ہوئے بتا رہے ہیں کہ’’ میں تو تیرے باپ کو زمین چٹا چکا ہوں تم کیا چیز ہو‘‘۔ممتاز بلوچ دیوبندی عالم دین جناب منظور احمد مینگل صاحب دوسرے بڑے دیوبندی عالم دین جناب مفتی عبدالواحد قریشی سے مسئلہ حیات النبیﷺ پر مناظرے کے چیلنجوں میں مصروف ہیں۔دیوبندی مولوی جناب بلال قریشی صاحب دوسرے دیوبندی مناظر اور ختم نبوت کے سکالر جناب مفتی مبشر احمد کو دجال جونئیر قرار دے کر ان کومناظروں اور مباہلوں کے لئے پکارہے ہیں۔
ممتاز بریلوی مفتی اکمل مدنی صاحب دوسرے بریلوی گروپ یعنی مفتی حنیف قریشی صاحب،سید عرفان شاہ مشہدی اور پیر سیدریاض حسین شاہ صاحب کو دو نمبر سنی قرار دیتے ہوئے ان کو راہ راست پر آنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
کراچی کےمشہور یو ٹیوبر دیوبندی عالم دین جناب مفتی طارق مسعود صاحب دوسرے بزرگ دیوبندی عالم دین جناب الیاس گھمن صاحب سے اس بات پر مناظرے اور مباحثے میں مصروف ہیں کہ اللہ تعالیٰ کہاں ہے ؟
فیصل آباد کے ممتاز بریلوی عالم دین جنہیں بریلوی حلقے ’’مناظر اسلام ‘‘ کے نام سے عزت دیتے ہیں وہ ایک دوسرے بہت بڑے بریلوی گروپ یعنی سید عرفان شاہ صاحب۔ پیر سید منور شاہ جماعتی علی پور سیداں والے۔ اور پیر سید ریاض حسین شاہ صاحب پنڈی والوں کو رافضی شیعہ قرار دیتے ہوئے پو چھ رہے ہیں کہ ’’ بتاو تو سہی کہ اگر علی دا پہلا نمبر ہے تو ابو بکر کا کون سا نمبر ہے؟‘‘
جلالی گروپ سے تعلق رکھنے والے جناب عمران جلالی صاحب سید عرفان شاہ صاحب کے گروپ سے مناظرہ کے اعلان کے ساتھ فرمارہے ہیں کہ مفتی چمن زمان ۔ مفتی حنیف قریشی اور عرفان شاہ صاحب گستاخ اور جاہل عرفانی ٹولہ ہیں۔
معروف بریلوی پیر جناب نوشاہی قادری صاحب نے سید عرفان شاہ صاحب کے گروپ کی حمایت کرکے ان کے گروپ سے جاملے ہیں تو اس پر جلالی گروپ کے مفتی زاہد جلالی صاحب ان پر بھی لعن طعن کرتے ہوئے فرما رہے ہیں’’ عالمی مبلغ اسلام جناب پیر معروف شاہ نوشاہی قادری صاحب ہوش کے ناخن لیں۔ بریلی شریف کے فتویٰ کے مطابق عرفان شاہ کا بیان سننا حرام ہے‘‘جواب میں پیر سید ریاض حسین شاہ صاحب نے اپنے گروپ کے تمام جید علماء کرام اور پیران کرام کے ساتھ مل کر ایک بڑا جلسہ کیا اور ان تمام بریلوی علماء کو ’’یہودی طوطے قرار دے دیا جو پاکستان میں تخریب کاری میں مصروف ہیں۔‘‘جبکہ جواب الجواب میں میاں تنویر احمد نقشبندی صاحبزادہ کوٹلہ شریف نے جوابی جلسہ میں عرفانی گروپ کے لتے لیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ وہ وقت یاد کریک کہ جب آپ بیٹھے ہوتے تھے اور نعرہ لگتا تھا سنیوں کے شہنشاہ ۔اور آگے آپ خود بولتے تھے عرفان شاہ عرفان شاہ ۔اور اب یہ نعرہ لگ رہا ہے سنیوں کے شہنشاہ ۔۔۔۔۔(جانور کا نام سے گالی دے کر) بے حیاء بے حیاء۔ پھر آپ نے مزید غصہ میں میں پنجابی میںفرمایا۔’’ جن جیا۔ نہ منہ نہ متھا ۔جن پہاڑوں لتھا۔چربی کڈا کے آئیو او کے چربی نال دماغ وی کڈا دتا اے۔۔تاڈے نام بیٹھا بُولی ( جانور کا نام) تانوں کیڑے پاسے لے ٹریا اے‘‘
اہل حدیث عالم دین جناب حافظ عمر صدیق صاحب کا گروپ جو کہ اہل حدیثوں میں حسینی اہل حدیث کہلوا رہا ہے مناظرہ کرنے اپنے تمام گروپ کے ساتھ حافظ کفائت اللہ سنابلی صاحب کے مدرسے جا پہنچے اور ان کو وہاں موجود نہ پاکر اعلان کرتے ہوئے فرمایا ’’کہاں ہیں کنجر ابو یحیٰ اور امن پوری یزیدی مولوی لاو ان کو میرے سامنے ۔میں یہاں تمہارے مدرسے میں بیٹھا ہوں‘‘ ان کے واپس جانے کے فوری بعد جناب ابو یحیٰ صاحب کا بیان یو ٹیوب کی زینت بن گیا کہ ’’ آپ نے بکواس کی انتہا کردی ہے ۔ انہوں نے مسجد میں کھڑے ہو کر میرے لئے بولا کہ وہ دونوں حرام زادے کہاں ہیں اور میرے لئے کنجر کا لفظ بولا۔میں آپ جیسے بد تمیز اور بد زبان سے بات کرنا مناسب نہین سمجھتا۔آپ نے مجھے حرام زادہ کہا میں آپ کو حرام زادہ تو نہیں کہتا لیکن یہ یاد کرواتا ہوں کہ کل تک جو لوگ آپ کو عمر صدیق کی بجائے عمر زندیق کہتے تھےمیں ان کی زبان پکڑتا تھا لیکن شاید ہم اس بات پر حق بجانب نہیں تھے۔آپ کو زندیق کیا جاتا تھا درست کہا جاتا تھا ۔شرم کریں آپ کو حیا ء نہیں۔کیا آپ مسلمان ہیں؟
اسی دوران ڈاکٹر اشرف آصف جلالی صاحب نے ایک نئے بریلوی گروپ یعنی تحریک منیاج القرآن سے بھی چھیڑچھار شروع کردی ہے آپ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی منہاج القرآن پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرما رہے تھے ’’میلاد منائیں مگر منھاجی شر نہ پھیلائیں‘‘
بریلویوں میں سےکسی مفتی اور پیر کا یہ نعرہ لگانا کہ یزید خلیفہ برحق اور رحمۃ اللہ علیہ ہے اور کربلا میں یزیدیوں نے کوئی پانی بند نہیں کیا سید عرفان شاہ گروپ نے مفتی فضل احمد چشتی کو یزیدی گروپ قرار دے کر انہیں مباہلہ کا چیلنج دے دیا۔ ابھی ان گروپوں میں مباہلہ طے نہیں ہوا تھا کہ حجرہ شاہ مقیم کے سید مفتی مراتب علی شاہ بھی مفتی فضل احمد چشتی کے خلاف نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ اسی دوران ہوا یہ کہ چشتیاں کے پاس ایک گائوں میں مفتی فضل احمد چشتی صاحب کے مرید عنصر چشتی صاحب اور پیر مراتب علی شاہ صاحب کے مرید شبیر حسین کے درمیان بحث چل نکلی کہ میرا حسینی ہو کر سچا یا تیرا پیر یزیدی ہو کر سچا ہے ۔دونوں میں طے یہ پایا کہ آگ جلاتے ہیں اور آگ میں کود جاتے ہیں جو سچا ہو گا اور جس کا پیر سچا ہو گا وہ آگ میں نہیں جلے گا چنانچہ وہیں اوپلوں کی آگ جلائی گئی اور باری باری دونوں آگ میں کود پڑے۔ اب میدان کارزار یون سجا ہے کہ دونوں پیر صاحبان نے اپنے اپنے مریدین کو اپنے پاس بلوا لیا ہے گائوں گائوں دورے کرکے جلسے کئے جا رہے ہیں اور فخریہ طور پر ایک گروہ شبیر حسین اور دوسرا گروہ عنصر چشتی کو فاتح مباہلہ اور اپنی اپنی گدی اور مئوقف کے سچا ہونے اور دوسرے فریق کے باطل ہونے خدائی فیصلہ لوگوں کے سامنےپیش کیا جارہا ہے ان کو غازی کے خطاب اور پھولوں سے لادا جا رہا ہے یوں کفر اور اسلام کی ایک نئی جنگ بڑی آب وتاب سے لڑی جارہی ہے۔
پھر اگر دیکھیں کہ یہ سکالرز اور علمائے دین اپنے ہی بھائی بندوں کو کن ’’پاکیزہ القابات ‘‘ کی محبت سے نواز رہے ہیں وہ جاننا بھی ضروری ہے کیونکہ ہم اپنی اقدار و روایات کا بڑے فخر سے ذکر کرتے ہیں۔ مثلاََ اسی مباہلہ والے گروپ کو دیکھیں تو حجرہ شاہ مقیم کے سید برادران مفتی فضل چشتی صاحب کو ’’ فضلو گشتی ‘‘ کے نام سے مخاطب کر رہے ہیں تو مفتی فضل چشتی صاحب حجرہ والے سید مراتب علی شاہ صاحب کو مرتبان شاہ کے نام سے عزت دے رہے ہیں۔حافظ عمرصدیق صاحب جناب مفتی ابو یحیٰ صاحب کو ’’کنجر ‘‘اور وہ جواب میں انہیں ’’زندیق اور گندا بچہ ‘‘ کے لقب سے نوازتے ہیں۔مفتی الیاس قادری صاحب امیر اہل سنت کو مفتی حنیف قریشی صاحب’’ جاہل پیر اور رانگ نمبر ‘‘قرار دیتے ہیں۔اورمیاں تنویر احمد نقشبندی صاحب مفتی حنیف قریشی صاحب کو ’’ حنیف مویشی ٹیرا‘‘ جیسے برے نام سے پکارتے ہیں۔محتر م ڈاکٹر اشرف آصف جلالی صاحب محترم سید ریاض حسین شاہ صاحب کو’’ گستاخ‘‘ قرار دیتے ہیں تو علامہ محمود احمد گولڑوی صاحب جناب جلالی صاحب کو ’’دجالی ‘‘ اور ان کے ایک مرید مفتی زاہد صا حب کو ’’ زاہد خطائی ‘‘ کے بگڑے نام سے یاد کر رہے ہیں۔جبکہ شیعہ عالم دین امین شہیدی صاحب جلالی صاحب کو ’’ فسادی مُلہ ڈاکٹر آصف زلیلی ‘‘ کے بدترین نام سےمعنون کر رہے ہیں۔جناب فضل چشتی صاحب ہجرہ شاہ مقیم کی گدی کو ’’ ہجروی کوفی ‘‘ اور ان کے ایک مفتی منیر نقشبندی صاحب کو ’’ منیر نفسبندی اور خنزیر نفسبندی‘‘ جیسے غلیظ لفظوں سے یاد کرتے ہیں۔
یہ ہیں وہ نئے فتن جو ہماری بستیوں کو اکاس بیل کی طرح جکڑتے جا رہے ہیں۔دیوبندی،وہابی ،بریلوی اور شیعہ ۔۔۔یہ جھگڑے تو صدیوں سےچلے آ رہے تھےاس پر تو کچھ کہنے اور لکھنے کی ضرورت نہیں ہے مگر حالیہ مندرجہ بالا علمی موشگافیاں ۔یہ ہے مذہبی سموگ کا وہ کالا دھواں جو دبے پائوں سانسوں کو بند کرنے کے لئے گائوں گائوں شہر شہر پہ چھاتا جارہا ہے اور ہم سب اسکی ہلاکت آفرینیوں سے بے نیاز اور بے فکر پڑے ہوئے ہیں۔کیا بغداد کی تباھی کے وقت کے علمی محفلیں اور مناظرے ہمارے آج کے حالیہ علمی شگو فوں سے مختلف تھے؟؟ ۔بالکل بھی نہیں۔ اور یہی بات جناب وزیر اعظم صاحب رحمت للعامین اتھارٹی بنانے کے ساتھ ساتھ سوچنے کی ہے۔